بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکہ میں ہر سال چھ لاکھ (600,000) سے زائد افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں یا ان کی شناخت نہیں ہو پاتی۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز جلد حل ہو جاتے ہیں، لیکن گمشدہ اور نامعلوم افراد کے قومی نظام (National Missing and Unidentified Persons System [NamUs]) کا ڈیٹا بیس، 21,000 سے زیادہ لاپتہ اور تقریباً 14,000 نامعلوم کیسز کے ساتھ، ان کیسز کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
بہت سے مطالعات میں لاپتہ اور نامعلوم کیسوں میں تشدد کے کردار کا براہ راست جائزہ لینے کے لئے NamUs ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے۔ مقدمات کو متن اور کلیدی الفاظ (Key-words) کے تجزیے کا استعمال کرتے ہوئے دو زمروں میں تقسیم کیا گیا تھا: تشدد آمیز اور غیر تشدد آمیز، اور تشدد کی نوعیت، کیس کی عمر، کیس کی حیثیت اور ڈی این اے کی دستیابی جیسی خصوصیات کا جائزہ لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہؤا کہ امریکہ میں خواتین کے معاملات میں تشدد زیادہ رائج ہے، جس میں جسمانی تشدد، عورتوں پر جاری تشدد کی رائج ترین قسم ہے۔

لاپتہ سفید عورت سنڈروم
غیر حل شدہ فوجداری مقدمات حل کرنے کے مرکز (Center for solving unsolved criminal cases) کی بانی سارا اسٹین (Dr. Sarah Stein) نے لاپتہ خواتین کی خبروں کی کوریج کے طریقہ کار کا جائزہ لیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ میڈیا غیر متناسب طور پر سفید فام خواتین کے معاملات پر [زیادہ] توجہ مرکوز کرتا ہے، یہ ایک رجحان ہے جسے "لاپتہ سفید عورت سنڈروم" (Missing white woman syndrome) کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے شیری پارکس (Sherri Parks) نے تخلیق کی تھی اور اسے 2004 میں گوین ایفل (Gwen Ifill) نے مشہور کیا تھا، جس نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا، "اگر کوئی سفید فام عورت لاپتہ ہو جائے تو تم اسے ہر روز کوریج دو گے۔"

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ سفید فام خواتین کے کیسز کو کوریج دیتے وقت، ان کے خاندانی یا تعلیمی کردار پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، جب کہ رنگین (Colored) خواتین کے معاملے میں، زیادہ تر تشددآمیز یا مجرمانہ پس منظر جیسے منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
اسٹین اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ذرائع ابلاغ نوجوان، خوبصورت اور سفید فام متاثرین میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
سیاہ فام خواتین، قتل اور گمشدگی کے بحران کا اصل نشانہ
ریاستہائے متحدہ کو ایک سنگین بحران کا سامنا ہے جس کو کافی توجہ نہیں دی گئی ہے اور لاپتہ اور قتل ہونے والی سیاہ فام خواتین اور لڑکیوں کی بڑی تعداد ہے۔ یہ بحران خاندانوں اور برادریوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے ہیں، لیکن اس [بحران] کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
سیاہ فام خواتین اور لڑکیوں کو غیر متناسب طور پر تشدد، اسمگلنگ اور منظم سردمہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس انہیں گمشدگی اور قتل کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ 2022 میں، لاپتہ ہونے والی 271,493 (دو لاکھ اکھتر ہزار چار سو ترانوے) خواتین اور لڑکیوں میں سے 36% سے زیادہ سیاہ فام تھیں، جبکہ سیاہ فام خواتین اس سال ریاستہائے متحدہ میں خواتین کی کل آبادی کا صرف 14% تھیں۔ طبی جریدے دی لانسیٹ (The Lancet) میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سیاہ فام خواتین کے قتل کا خطرہ سفید فام خواتین کے مقابلے میں، چھ گنا زیادہ رہتا ہے۔ یہ اعدادوشمار عدم مساوات، تعصبات اور وسائل کی قلت کو نمایاں کرتے ہیں جس سے اس بحران کا مقابلہ کرنا مزید مشکل بن جاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کہانیوں کی تشکیل اور عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن سیاہ فام خواتین اور لڑکیوں کے کیسز کو اکثر ویسی کوریج نہیں ملتی جو سفید فام خواتین کو ملتی ہیں۔
کچھ حصہ اعداد و شمار کے بارے میں
ایف بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ نوجوان لوگوں، خاص طور پر نوجوان خواتین کی گمشدگی کی رپورٹ دی جائے۔ 20 سال کی عمر تک کے افراد کی گمشدگی کی تقریباً 380,000 رپورٹیں ایف بی آئی کے پاس رجسٹرڈ ہو چکی ہیں، جبکہ 21 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد تقریباً 170,000 ہے۔ 20 سال سے کم عمر والوں میں 54 فیصد خواتین تھیں، اور 21 سال سے زیادہ عمر والوں میں 39 فیصد خواتین تھیں۔ لاپتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد حضانت (گود لینے اور سرپرستی قبول کرنے) کے تنازعات اور گھروں سے بھاگ جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ افراد رضاکارانہ طور پر غائب ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی خطرے میں ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ آزادی خواتین کی سلامتی کی جو تصویر پیش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود حقیقت بالکل مختلف ہے: خواتین، خاص طور پر نوجوان خواتین اور سیاہ فام خواتین، تشدد، گمشدگی اور قتل کا نشانہ بنتی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ میڈیا کی آزادی معاشرے میں خواتین کے حقیقی تحفظ سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ بحران آزادی اور حقوق نسوان کے سب سے بڑے دعویدار ملک امریکہ میں خاموشی سے جاری ہے، گوکہ اس کے دعوے ابھی باقی ہیں، مکمل رسوائی تک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محترمہ پرشنگ خاکپور
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ